بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءهُ فَلاَ تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ) سورہ آل عمران، آیت ۱۷۵
ترجمہ: يہ شيطان صرف اپنے چاہنے والوں كو ڈراتا ہے لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور اگر مومن ہو تو مجھ سے ڈرو۔
موضوع:
اس آیت کا موضوع شیطان کی کوششوں کو بے نقاب کرنا اور مؤمنوں کو صرف اللہ سے ڈرنے کی ہدایت کرنا ہے۔
پس منظر:
یہ آیت غزوہ اُحد کے بعد نازل ہوئی تھی۔ جنگ کے دوران اور بعد میں کچھ مسلمانوں کو دشمن سے خوف محسوس ہوا۔ اس دوران، منافقین اور دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ دوبارہ حملہ کریں گے۔ اسی دوران یہ آیت نازل ہوئی تاکہ مسلمانوں کو اس بات کا یقین دلایا جائے کہ ان کو دشمنوں سے نہیں بلکہ اللہ سے ڈرنا چاہیے۔
تفسیر:
شیطان کی خوف دلانے کی چال:آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ شیطان انسانوں کو اپنے پیروکاروں سے ڈراتا ہے۔ یعنی وہ کفار، منافقین یا وہ لوگ جو اللہ کے راستے کے مخالف ہیں، ان کے ذریعے خوف و ہراس پھیلاتا ہے۔ شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ مؤمنین اپنے ایمان اور عمل میں کمزور ہو جائیں اور اللہ کی راہ سے ہٹ جائیں۔ یہ دراصل شیطانی وسوسے اور پروپیگنڈے ہیں جن کا مقصد مؤمنین کے دلوں میں خوف پیدا کرنا ہوتا ہے۔
اللہ سے خوف:اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو ہدایت دی ہے کہ وہ ان مخالفین سے خوفزدہ نہ ہوں بلکہ صرف اللہ سے ڈریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی مشکلات، مشکلات یا دشمنوں کی طرف سے پیدا ہونے والے خطرات کے باوجود، مؤمنین کو اپنی اصل توجہ اللہ کی طرف مرکوز رکھنی چاہیے۔ انہیں یقین رکھنا چاہیے کہ تمام طاقت اور مدد اللہ ہی کی طرف سے ہے، اور اللہ کے خوف کا مطلب ہے کہ اس کی نافرمانی سے بچنا اور اس کی رضا کو پیشِ نظر رکھنا۔
شرک اور نفاق سے بچنے کی تاکید:یہ آیت مؤمنین کو اس بات کی ترغیب دیتی ہے کہ وہ اپنے ایمان میں مضبوط رہیں اور شیطانی خوف کی پرواہ نہ کریں۔ کسی بھی حالت میں اللہ کی اطاعت کو ترک نہ کریں اور نہ ہی کفار و منافقین کے خوف میں مبتلا ہوں۔
نتیجہ:
اس آیت کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ مؤمنین کو چاہیے کہ وہ کسی بھی خوف یا خطرے کے بجائے اللہ سے ڈریں، کیونکہ اللہ کے خوف سے ہی حقیقی تقویٰ اور ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ اور اسی سے دینی و دنیاوی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راھنما، سورہ آل عمران